Jamia Taha - Center of Islamic Education

Tafseeri Afadiyat

Tafseeri Afadiyat
افادات # 23

اقتربت الساعة وانشق القمر..سوره قمر سورہِ قمر میں چاند کے شق ہوجانے کا دوحصوں میں تقسیم ہوجانے کے معجزے کا ذکر ہے. سورہِ قمر مکی سورت ہے. اور قمر عربی زبان میں چاند کو کہتے ہیں. شقِ قمر کے واقعہ کا پس منظر یہ تھا کہ مشرکینِ مکہ نے آپ علیہ الصلوۃ السلام سے اس بات کا مطالبہ کیا کہ اگر آپ سچے ہیں تو نبوت اور رسالت کے لیے کوئی نشانی دکھائیں کوئی معجزہ دکھائیں؟ تو منیٰ کے مقام پر چاندنی رات میں آپ علیہ الصلوۃالسلام نے اللہ جل شانہ کے اذن سے یہ کھلا معجزہ دکھایا کہ چاند کے دو ٹکرے ہوگئے. ایک مشرق کی طرف اور دوسرا مغرب کی طرف چلاگیا اور دونوں ٹکروں کے درمیان میں پہاڑ حائل نظر آنے لگا. رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے سب حاضرین سے کہا کہ دیکھو اور شہادت دو. سب لوگوں نے صاف طور پر یہ معجزہ دیکھ لیا تو دونوں ٹکرے آپس میں مل گئے اور اس معجزے کا انکار کسی آنکھوں والے سے ممکن نہ ہوسکا. مشرکین پھر بھی نہ مانے اور کہنے لگے کے اطراف کے لوگوں کا انتظار کرو کہ وہ کیا کہتے ہیں. پھر جب اطراف سے آنے والے تمام لوگوں سے پوچھا گیا اور تحقیق کی گئی تو سب نے کہاا کہ ہاں ہم نے ایسا ہی دیکھا تھا کہ چاند کے دو ٹکرے ہوگئے ہیں. بعض روایات میں آیا کہ یہ معجزہ شقِ القمر مکہ مکرمہ میں دو بار پیش آیا.مگر صحیح روایات میں اس کا ایک ہی مرتبہ ثبوت ملتا ہے. یہ مشرکینِ مکہ بہت ہی بدبخت تھے کہ یہ معجزہ دیکھ کر بھی اور باوجود اس کے کہ ان کے مطالبے پر یہ معجزہ دکھایا گیا تھا مگر پھر بھی ایمان نہ لائے. قرآن نے تذکرہ کیا کہ "اگر دیکھیں وہ کوئی نشانی تو اعراض کرتے ہیں اور کہتے ہیں یہ تو جادو ہے اور جھٹلا دیتے ہیں اور اپنی خواہشات کی پیروی کرتے ہیں اور آپ ان سے ہٹ جائیں. قیامت کے دن جب پکارنے والا پکارے گا ان کو تو یہ ڈرتے ہوئے اپنی نگاہوں کے ساتھ نکلیں گے جیسے بکھری ہوئی ٹڈیاں ہوتی ہیں. " انسان کا اندر سچا نہ ھو تو چاند کا دو حصوں میں ھونا بھی کچھ نفع ان مشرکین کو نہ دے سکا اور اگر اندر کا من سچا ھو تو صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی طرح کا ھوتا ھے ۔نہ کوئی دلیل نہ کوئی مطالبہ ۔صرف اور صرف اعتماد اور یقین اسے ایمان کہتے ھیں ۔ھمیں یہ ایمان چاھئے (ڈاکٹر)مفتی حماد فضل ایم. ایس اسلامک بینکنگ مکمل تفسیر ایک نئے انداز میں سننے کے لیے وزٹ کریں "میرا تذکرہ قرآن میں"

Tafseeri Afadat# 23

Share  

افادات#22

اللہ جل شانہ قرآن پاک میں فرماتے ہیں کہ "انسان کو وہی کچھ ملتا ہے جس کی وہ کوشش کرتا ہے اس کی کوشش دیکھی جائے گی. " اس آیت کا مطلب ہمارے ہاں دوسری طرح سے لیا جاتا ہے کہ انسان کو وہی ملتا ہے جس کے لیے وہ کوشش کرتا ہے. اور جس کے لیے کوشش نہیں کرتا وہ ملتا نہیں ہے. حالانکہ یہاں جو سیاق و سباق ہےاور جس مفہوم میں یہ آیت آئی ہے وہ اس بات کو بیان کرنے کے لیے آئی ہے کہ انسان جو آخرت کے لیے کوشش کرتا ہے وہ اللہ جل شانہ اس کو آخرت کے لحاظ سے دے دیتے ہیں. اور جو محض دنیا کے لیے کوشش کرتا ہے اس کو دنیا کے لحاظ سے اجر مل جاتا ہے. آخرت میں اس کا کوئی حصہ نہیں ہوتا اور انسان جس مقصد کے تحت کوشش کرتا ہے اس کے مطابق اس کو ملتا ہے. اللہ جل شانہ فرماتے ہیں اگر تمھاری کوشش کو دیکھا جائے تو اس کے مطابق تمیں بدلہ دیا جائے گا.اور یہ کہ تیرے رب تک سب کو پہنچنا ہے.وہی ہنساتا ہے وہی رلاتا ہے. وہی زندہ کرتا ہے وہی موت دیتا ہے. اسی نے جوڑے بنائے ہیں.اور وہی دوبارہ زندہ کرے گا.اسی نے دولت دی اور اسی نے خزانہ دیا. اسی نے عادِ اولیٰ کو ہلاک کیا اور ثمود کو بھی اور قومِ نوح کو بھی اور ان سب کو. اور آخر تم اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاؤگے. (ڈاکٹر)مفتی حماد فضل ایم. ایس اسلامک بینکنگ مکمل تفسیر ایک نئے انداز میں سننے کے لیے وزٹ کریں "میرا تذکرہ قرآن میں"

Tafseeri Afadat# 22

Share  

افادات # 21

اللہ جل شانہ نے قرآنِ پاک میں مومنین کے حوالے سے نصیحت فرمائی ہے یہ نصیحت کرنا مومن کو نفع دیتا ہے.پھر اپنی تخلیق کا ذکر فرمایا ہے کہ ہم نے جن و انسان کو نہیں پیدا کیا مگر اپنی عبادت کے لیے. ہم ان سے رزق نہیں چاہتے، رزق تو اللہ دیتا ہے.بلکہ ہم نے ان کو اپنی عبادت کے لیے پیدا کیا.تاکہ یہ باوجود اس اختیار کے یعنی ان کے اندر نفس بھی ہے اور ان کے اندر شہوت بھی ہے اور ان کو ضروریات بھی لاحق ہیں. اس کے ساتھ ساتھ اللہ جل شانہ نے ان سے عبادت کا تقاضا کیا. فرشتے بھی اللہ کی عبادت میں مشغول ہیں لیکن ان کے ساتھ ضروریات نہیں لگیں ہوئیں. اور ان کے ساتھ نفس کے یہ تقاضے بھی نہیں لگے ہوئے.اور ان نفس کے تقاضوں کے ساتھ ساتھ اللہ جل شانہ نے جن باتوں سے روکا ہے ان سے رکے. تو عبادت سے مراد صرف یہ نہیں ہے کہ نماز پڑھے. بلکہ یہاں عبادت سے مراد پورا دین ہے کہ پورے دین میں تمام احکامات پر عمل کرے. جن باتوں کو اللہ جل شانہ نے حکم دیا کرنے کا اور جن باتوں سے اللہ تعالیٰ نے روکا ہے ان سے رکے. (ڈاکٹر )مفتی حماد فضل عفی عنہ Jamiataha.com askmuftihammad.com مکمل تفسیر ایک نئے انداز میں سننے کے لئے وزٹ کرین میرا تذکرہ قرآن میں ھماری ویب سائٹ پر

Tafseeri Afadat# 21

Share  

بھروسہ صرف اللہ پر نا کہ اسباب پر!تفسیری افادات ازخلاصئہ تفسیر #18

قَالَ مَا مَكَّنِّي فِيهِ رَبِّي خَيْرٌ فَأَعِينُونِي بِقُوَّةٍ أَجْعَلْ بَيْنَكُمْ وَبَيْنَهُمْ رَدْمًآ (سورہ الکہف آیت 95 پارہ16) کہا کہ تم قوت کے ساتھ میری مدد کرو. یہ جو مدد طلب کی ھے وہ ماتحت الاسباب ھے. بعض لوگ کہتے ھیں ذوالقرنین نے مخلوق سے مدد مانگ لی. مدد دو طرح کی ھوتی ھے. ایک : تو وہ مدد ھوتی ھے جو مدد طلب کرنا ھوتا ھے جو کہ اسباب کے تحت ھے. اللہ تعالی نے مختلف اشیاء کو سبب بنایا ھے. آدمی ڈاکٹر کے پاس جاتا ھے دوائی لیتاہے ھے تو جو بیمار ھوتا ھے تو ڈاکٹر سبب ھے. شفاعت تو اللہ ھی کی ھے. ھم اسباب اختیار کریں گے مگر اسباب پر بھروسہ بالکل بھی نہیں کریں گے. بھروسہ صرف اللہ کی ذات پر کریں گے. اور اسباب کے درجے میں کسی سے مدد طلب کرنا یہ استعانت ما تحت الاسباب کہلاتا ھے. یہ جائز ھے بشرطیکہ موثر نہ سمجھے ایک وہ مدد طلب کرنا ھوتا ھے جو اسباب کے دائرے سے باھر ھے. جیسے ھم ڈاکٹر سے یہ طلب کریں کہ تم ھمیں شفاء دے دو. یہ ایسی مدد طلب کرنا ھے جو اسباب کے دائرے سے اوپر کی مدد ھے، اور اسےاستعانت ما فوق الاسباب کہا جاتا ھے، یہ ڈاکٹر اس کے لئے سبب ھے ھی نہیں کہ اس کو شفاء دے سکے. شفاء دینے والی ذات تو اللہ کی ھے. یہ مافوق الاسباب شرک ھے. یعنی ایک تو سبب ھے ھی نہیں اس چیز کے لئے اس کو آپ پکاریں تو وہ شرک میں چلا جاتا ھے. از افادات-خلاصئہ تفسیر قرآن کریم مفتی حماد فضل عفی عنہ

Tafseeri Afadat# 18

Share  

خضر علیہ السلام زندہ ھیں؟تفسیری افادات ازخلاصئہ تفسیر #17

ۚ وَمَا فَعَلْتُهُ عَنْ أَمْرِي ۚ ذَٰلِكَ تَأْوِيلُ مَا لَمْ تَسْطِعْ عَلَيْهِ صَبْرًآ (سورہ الکہف آیت 82 پارہ 16) میں نے یہ اپنے حکم سے نہیں کیا. یہ جواب تھا ان سب چیزوں کا جن کے بارے میں آپ صبر نہیں کرسکے. اس واقعے کے اندر دو اھم امور باقی رہ گئے ھیں. ایک :تو یہ کہ کیا خضر علیہ السلام نبی ھیں یا اللہ کے نیک بندے ھیں؟ راجح قول یہ ھے کہ حضرت خضر علیہ السلام بھی نبی ھیں. بس یہ ھے کہ ان کو تکریمی علوم کا علم دیا گیا ھے . اور خاص امت اور قوم کی طرف مبعوث نہیں کئے گئے بلکہ ان کے ذمے علوم ھیں. دوسرا : یہ کہ حضرت خضر علیہ السلام اب بھی حیات ھیں کہ نہیں؟ اس کے بارے میں بھی جمھور امت کا قول یہ ھی ھے کہ وفات پا چکے ھیں. اس کی وجہ یہ ھے کہ "کل نفس ذائقہ الموت" یعنی ھر جاندار نے مرنے کا مزہ چکھنا ھے. اور دوسری وجہ یہ بھی ھے کہ آحادیث مبارکہ میں اللہ کے نبی علیہ الصلوہ والسلام کا ارشاد مبارکہ ھے . آپ علیہ الصلوہ والسلام نے ارشاد فرمایا. آج میری امت میں جو لوگ موجود ھیں سو دو سو سال بعد ان میں سے کوئ نا ھوگا. تو اس حدیث سے یہ استدلال کیا جاتا ھے کہ حضرت خضر علیہ السلام وفات پا چکے ھیں اور دوسرا یہ کہ اللہ کے نبی علیہ الصلوہ والسلام نے ارشاد فرمایا کہ اگر موسی علیہ السلام بھی زندہ ھوتے تو وہ میری ھی اتباع کرتے. اگر موسی علیہ السلام زندہ ھوتے تو ان کے پاس میری اتباع کرنے اور پیروی کرنے کے کوئ چارہ نہیں ھے. باقی : حضرت مجدد الف ثانی رحمہ اللہ کا ایک مکاشفہ ھے اور اس مکاشفہ سے یہ بات کافی واضح ھوجاتی ھے. وہ فرما تے ھیں کہ حالت کشف کے اندر حضرت خضر علیہ السلام سے ملاقات ھوئ اور میں نے ان سے دریافت فرمایا کہ آپ زندہ ھیں؟ تو انہوں نے کہا کہ نہیں میں اور حضرت الیاس علیہ السلام دونوں زندہ نہیں ھیں. اللہ تعالی نے ھمیں یہ قوت بخشی ھے کہ ھم زندہ آدمیوں کی شکل میں جب اللہ جل شانہ نے کسی کی مدد کرنا مقصود ھو تو اللہ تعالی ھمیں ظاھرکردیتا ھے. واللہ تعالی اعلم از افادات-خلاصئہ تفسیر قرآن کریم مفتی حماد فضل عفی عنہ سنئیے تفسیر ھر اتوار کو ایک نئے انداز میں. ھماری ویب سائٹ jamiataha. com پ

Tafseeri Afadat# 17

Share