Jamia Taha - Center of Islamic Education

Tafseeri Afadiyat

Tafseeri Afadiyat
تفسیری افادات #5 انتخاب از خلاصہ تفسیر مفتی حماد فضل

تفسیری افادات #5 انتخاب از خلاصہ تفسیر مفتی حماد فضل  گواہی،ووٹ،اورسرٹیفکیٹ صرف اللہ کےلئے! اللہ جل شانہ نے ھمیں حکم دیا ھے کہ گواھی ٹھیک ٹھیک حق کے ساتھ دو۔اپنی عزت دوستی رشتے داری اور قوم کی خاطر غلط گواھی مت دو یہ ہماری قوم کا ،برادری کا یا تعلق والا ہے اور میں نے اس کو بچانا ھے یایہ ٹھیک ھی ھو گاکہ کیونکہ میرا دوست ھے ۔میرا بھائی ھے۔ ہم نے تو اس کے حق میں ہی گواہی دینی ہے،بھلے اس نے غلط کام ھی کیوں نہ کیا ھو! اللہ تعالی نے صراحتا اس کو منع فرمایا ہے يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُونُوا قَوَّامِينَ لِلَّهِ شُهَدَاءَ بِالْقِسْطِ ۖ وَلَا يَجْرِمَنَّكُمْ شَنَآنُ قَوْمٍ عَلَىٰ أَلَّا تَعْدِلُوا ۚ اعْدِلُوا هُوَ أَقْرَبُ لِلتَّقْوَىٰ ۖ وَاتَّقُوا اللَّهَ ۚ إِنَّ اللَّهَ خَبِيرٌ بِمَا تَعْمَلُونَ (سورہ المائدہ آیت8پارہ6 ) اے لوگو: جو ایمان لائے ھو اللہ کی خاطر گواہی دینے کےلیے کھڑے ھوجاو. اور کسی قوم کی دشمنی کے باعث تم مجبور نہ ھوجاو کہ انصاف سے پھر جاو. عدل کرو،وہ تقوی کے زیادہ قریب ہے اور اللہ سے ڈرو بے شک اللہ زیادہ خبر رکھنے والا ہے تمہارے اعمال کی . تو یہ بہت جامع قسم کی آیت ھے. گواہی سے مراد فقط یہ نہیں ھے کہ حاکم یا قاضی یا جج صاحب کے سامنے ھی گواہی دی جائے،بلکہ یہ لفظ بہت وسیع معنی رکھتا ھے. مثلا:کسی بیمار کو ڈاکٹری سرٹیفیکیٹ لکھ کردینا کہ یہ ڈیوٹی کے قابل نہیں ہے،یہ بھی شہادت ہے!اب اگر کسی تندرست کو بیماری کا سرٹیفکیٹ دیا تو یہ جھوٹی گواھی ھے۔ اسی طرح سے امتحان میں طلباء کے پرچموں میں نمبر لگانا یہ بھی ایک طرح کی شھادت ھے! کسی کو سند دینا، سرٹیفکیٹ دینا یہ بھی ایک طرح کی شھادت ھے. کسی امیدوار کو ووٹ دینا یہ بھی ایک طرح کی شھادت ھے. کہ ہم گواہی دے رھےھیں کہ یہ شخص اس کا اھل ھے کہ یہ اسمبلی میں جائے. تو لہذا اس شخص کے حق میں گواھی دو جو اس کا اھل ھو ! از افادات-خلاصہ تفسیر قرآن کریم مفتی حماد فضل عفی عنہ

Tafseeri Afadat# 5

Share  

تفسیری افادات #3 انتخاب از خلاصہ تفسیر مفتی حماد فضل علماء کے پاس دنیا کی نعمتیں

امام مالک رحمتہ اللہ علیہ بہت عمدہ لباس پہنا کرتے تھے.اور کسی نے جب ان پر اعتراض کیا کہ آپ عمدہ لباس کیوں پہنتے ہیں؟ تو انھوں نے جواب فرمایا " قُلْ مَنْ حَرَّمَ زِينَةَ اللَّهِ سوره اعراف آپ کہہ دیجیے کس نے اللہ کی زینت کو حرام کیا؟ " آج کل کا زمانہ عجیب ہے کہ لوگ کسی بڑے عالم کے پاس مہنگا موبائل دیکھ لیں، مھنگی گاڑی دیکھ لیں تو ان کو یہ اشکال ہونا شروع ہوجاتا ہے کہ یہ عجیب عالم ہیں، یہ عجیب اللہ والے ہیں دنیا لئے پھرتے ھیں۔ اللہ نےتو رھبانیت کا نہیں کہا ۔مگر ھم شائد چاھتے ھیں کہ علما ملنگ بن جائیں۔ .کسی بزرگ کو گاڑی سے اترتا دیکھ لیں تو کہتے ہیں عجیب اللہ والے ہیں کوٹھیوں میں رہتے ہیں. بھئی کوٹھیوں میں نہ رہیں تو کیا جھونپڑی میں رہیں؟ اسلام میں رہبانیت نہیں ہے .اسلام میں ترکِ دنیا نہیں ہے.اللہ تعالی ارشاد فرماتا ھے *قُلْ مَنْ حَرَّمَ زِينَةَ اللَّهِ الَّتِي أَخْرَجَ لِعِبَادِهِ وَالطَّيِّبَاتِ مِنَ الرِّزْقِ ۚ قُلْ هِيَ لِلَّذِينَ آمَنُوا فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا خَالِصَةً يَوْمَ الْقِيَامَةِ ۗ كَذَٰلِكَ نُفَصِّلُ الْآيَاتِ لِقَوْمٍ يَعْلَمُونَ (سورة الأعراف, الآيه ٣٢)* آپ کہ دیں کس نے حرام کی اللہ کی زینت جو اللہ نے اپنے بندوں کے لیے نکالی ہے.اور پاکیزہ رزق . آپ کہہ دیجیے یہ تو ایمان والوں کے لیے دنیا کے اندر بھی ھیں اور قیامت کے دن بھی ان کے لیے ہیں .تو اللہ تعالیٰ نے کب منع کیا ہے زینت اختیار کرنے سے.بس یہ دکھاوے کے لیے نہ ہو نیت اللہ ہی کے لیے ہو. از افادات مفتی حماد فضل

Tafseeri Afadat# 3

Share  

تفسیری افادات #4 امر بالمعروف اور نہی عن المنکر

 وَلْتَكُنْ مِنْكُمْ أُمَّةٌ يَدْعُونَ إِلَى الْخَيْرِ وَيَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ ۚ وَأُولَٰئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ (سورة آل عمران, الآيه ١٠٤) اور تم میں ایک ایسی جماعت ہونی چاھیے جو اچھائ کی طرف بلائے اور نیکی کا حکم کرے اور برائ سے روکے اور یہی لوگ فلاح پانے والے ھیں۔ اللہ جل شانہ نے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر امت کے اوپر بحیثیت جماعت کےبھی فرض کیا اور انفرادی بھی۔ کہ ایک جماعت تم میں ضرور ایسی ہونی چاھیے جو نیکی کی دعوت دے اور نیکی کا حکم دے. یہی لوگ فلاح پانے والے ہیں. امربالمعروف اور نہی عن المنکر کی دو حیثیت ہیں! ایک یہ کہ جب کوئ شخص کسی کے سامنے کسی کی برائ ہوتا دیکھے تو اس کے لئے حکم ہے کہ وہ نیکی کا حکم دے اور برائ سے روکے. امربالمعروف اور نہی عن المنکر کا یہ درجہ ہر شخص کے اوپر بقدر طاقت فرض ہے. بقدر استطاعت اور طاقت اول درجہ تو یہ ھے کہ اس کو ہاتھ سے روک دے، دوسرا درجہ یہ ھے کہ ھاتھ سے نہیں روک سکتا تو زبان سے روک دے، تیسرا درجہ یہ ھےکہ زبان سے نہیں روک سکتا تو کم از کم دل میں برا جانے. اور دوسرا امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی حیثیت من حیث الجماعت ہے. کہ جماعت کی حیثیت سے، ایک مستقل جماعت اس کام میں لگی رہے. جیسے ھمارے ھاں تبلیغ کے کام میں جو کہ اصل میں تو تذکیر ہے ،یاد دہانی ہے آج کےمسلمانوں کو. اور جو لوگ اس کام میں لگے ہوئے ہیں وہ اس بشارت کے مستحق بنتے ہیں. " وَأُولَٰئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُون َ" کہ یہی لوگ فلاح پانے والے ہیں جو اس کام میں لگے ہوئے ہیں. ایک جماعت مستقل لگی ہوئی ہے . اور جو لوگ امر بالمعروف نہی عن المنکر کو فرض عین کی حیثیت سے کریں. یقینا: وہ بھی اس بشارت کے حق میں آتے ہیں.

Tafseeri Afadat# 4

Share  

تفسیری افادات از خلاصہ تفسیر #2 خلاصہ تفسیر از مفتی حماد فضل کیا مرد عورتوں پر حاکم ہیں

کیا مرد عورتوں پر حاکم ہیں (قال تعالى :الرجال قوامون على النساء) ترجمہ:مرد عورتوں پر حاکم کر دیے گئے ہیں؛ اللہ تعالی نے جسمانی طور پر انکو بڑائی دی ہے اور مردوں کو عورتوں پر نگران بنایا ہے ۔ اسلام نے جو مرد کو گھر کا حاکم قرار دیا اسکا مطلب یہ نہیں کہ شوہر اور مرد گھر کا آقا بن گیا اور عورت اس کی باندی اور لونڈی بن گی وہ جس طرح چاہے کرے یہ مطلب ہرگز نہیں ۔ نہ یہ مطلب ھے کہ مرد کوئی تھانیدار ھےجوچاھے کہ بیگم میرے آگے ھاتھ باندھے کھڑی رھے۔ بلکہ مطلب یہ ہے کہ جو اسلام نے شوہرپر ذمہ داریاں نافذ کی ہیں انہے پورا کرے گھر کے کام کاج اور باہر کے کاموں کی ذمہ داریاں ساری شوہر پر ڈالی گی ہیں اس لئے شریعت نے مشقت والے کام مردوں کے سپرد کیے ہیں مردوں کو اللہ تعالی نے جسمانی ساخت ایسی عطا کی ہے کہ وہ ان کاموں کا بوجھ اٹھا سکتے ہیں اور عورت کی ذمہ داری گھر میں سونپی گی کہ وہ گھر کا نظام سنبھالے ۔اب ھوتا الٹ ھے ۔ایسے مرد جو یہ آیت پڑھ کر اپنی بیگمات کو سناتے ھیں ۔ان کے کئ بوجھ بیگم نے اٹھائے ھوتےھیں مثلا بازار سے سودا لانا بچوں کا لانا۔یہ مرد کی ذمہ داری ھےاور اس میں اپکوان پر نگھبان بنایا گیا ھے۔اگر بیگم پردے میں رھتے ھوئے آپ کا بوجھ اٹھا رھی ھے تو اس کی ستائش کیجئے۔ از افادات: (ڈاکٹر )مفتی حماد فضل عفی عنہ ۔

Tafseeri Afadat# 2

Share  

1#افادات

کیا دین میں زبردستی ھے؟؟ ( لَا إِكْرَاهَ فِي الدِّينِ ۖ ) ترجمہ: دین کے اندر زبردستی نہیں ہے! تفسیر: لوگ اس آیت کا بہت غلط معنی استعمال کرتے ہیں. دین میں کوئ زبردستی نہیں ہے. ھمیں کیوں نماز کا کہتےھو ۔کیوں دیں پرعمل کرنے کا کہتے ھو ۔ یہ لوگ کہتے ھیں اس آیت کامطلب کیا ہے؟ اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ دین کے اندر داخل کرنے کے اندر زبردستی نہیں ہے. اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ دین کے اندر اگر آپ کسی کو نماز کا کہتے ہیں تو وہ آگے سے یہ کہے کہ دین کے اندر کوئ جبر نہیں ہے. بلکہ مطلب یہ ہے کہ کسی شخص کو جو غیر مسلم ہے اس کو ہم زبردستی دین میں داخل نہیں کریں گے. لیکن جو شخص دین میں داخل ہوگیا ہے. اس کے اوپر لازم ہے کہ دین کے تمام احکامات پر عمل کرکے انہیں قبول کرے. "لا اکراہ فی الدین" کا تعلق دیں میں داخل کرنے سے ہے. اور تمام دین کے احکام پر عمل کرنے کے بارے میں اللہ جل شانہ نے دوسری جگہ ارشاد فرمایا ہے. ادخلوا فی السلم کافة سورہ بقرہ آیت 256 پارہ 3 اس کی مثال ایسے ھی ھے کہ انگلینڈ میں داخل کرنے کی کوئی زبردستی ب نہیں۔ جس کا دل چاھے جس کا دل چاھے نہ آئے۔مگر جو انگلینڈ میں داخل ھو گیا اس پر انگلینڈ کے قانون کا ماننا لازم ھے ورنہ جیل جانا پڑے گا۔ از افادات۔تفسیر قران کریم بعنوان ۔میرا تزکرہ قرآن میں (ڈاکٹر )مفتی حماد فضل دامت برکاتہم العالیہ سنئے تفسیر ایک نئے انداز میں۔ میرا تذکرہ قرآن میں ۔

Tafseeri Afadat# 1

Share