Jamia Taha - Center of Islamic Education

Tafseeri Afadiyat

Tafseeri Afadiyat
تفسیری افادات#19 یہ آیت بار بار پڑھنے والی ھے!

نتخاب از خلاصئہ تفسیر قرآن کریم مفتی حماد فضل۔ عفی عنہ اللہ جل شانہ قرآن پاک میں فرماتے ہیں کہ "ہم نے قرآن کو آسان کر دیا ہے سمجھنے کے لیے تو ہے کوئی سمجھنے والا، سوچنے والا." یہ جو اللہ جل شانہ نے تذکرہ فرمایا ہے کہ ہم نے قرآن کو آسان کردیا ذکر کے لیے. تو ذکر کا لفظ دو معنیٰ کے لیے استعمال ہوتا ہے ایک یاد کرنے کے لیے اور یہ بالکل روزِ روشن کی طرح ہمارے اوپر واضح ہے کہ صرف قرآن وہ واحد کتاب ہے جس کے ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں کی تعداد میں حفاظ ہر زمانے میں موجود رہے ہیں اور لاکھوں کڑوڑوں کی تعداد میں حفاظ موجود ہیں جن کو قرآن زبانی بالکل اسی طرح یاد ہے.اس کے علاوہ اور کوئی کتاب نہیں جس کے حفاظ اس طرح سے موجود ہوں. قرآن پاک بہت آسانی سے یاد ہوجاتا ہے. حدیثِ مبارکہ بھی اس طرح جلدی یاد نہیں ہوتی جس طرح قرآن جلدی یاد ہوجاتا ہے. اور دوسرا جو معنیٰ ہے کہ ہم نے قرآن کو آسان کردیا تو یہ سمجھنے کے لیے اس نصیحت کو سمجھنے کے لیے کہ ہے کوئی سمجھنے والا اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ہم نے قرآن سے احکام نکالنا ہے کہ جوشخص عربی سے واقف بھی نہیں ہے وہ بھی قرآن پکڑ کر اجتہاد کرنا شروع ہوجائے کیونکہ اللہ تعالیٰ فر ما رہے ہیں کہ "ہم نے اس کو نصیحت کے لیے آسان کیا ہے. ' یعنی اس کو نصیحت حاصل کرنے کا مطلب کیا ہے کہ جس طرح قرآن سے ایک عالم نصیحت اور عبرت حاصل کرتا ہے اسی طرح سے بالکل ایسا شخص جو عربی سے بالکل نابلغ ہے وہ بھی جب قرآن کا واقعہ سنتا ہے تو اس سے وہ بھی عبرت حاصل کرتا ہے. اور وہ بھی اس سے اپنی آخرت کی طرف اور اپنے رب کی طرف پلٹ پڑتا ہے. جس طرح سے ایک عالم فائدہ حاصل کرتا ہے اس کی آیات سے ایک ایسا شخص جو جاہل ہے وہ بھی عبرت حاصل کرتا ہے.

Tafseeri Afadat# 19

Share  

تفسیری افادات#20 انتخاب ازخلاصئہ تفسیر یہ آیت بار بار پڑھنے والی ھے!

ويَوْمَ يَعَضُّ الظَّالِمُ عَلَىٰ يَدَيْهِ يَقُولُ يَا لَيْتَنِي اتَّخَذْتُ مَعَ الرَّسُولِ سَبِيلًا (سورہ القران آیت 27پارہ 19) قیامت کے دن ظالم اپنے ھاتھ کاٹ کاٹ کر کھائیں گے . کاش کہ ھم رسول پاک علیہ الصلوہ والسلام کا راستہ اپناتے،ھائے افسوس میں نے فلاں کو اپنا دوست کیوں بنایا اس نے مجھے گمراہ کردیا! یہ بھت کھول کر اور بار بار سننے والی آیت ھے . قیامت کے دن افسوس سے کہیں گے "میں نے فلاں کو اپنا دوست کیوں بنایا اس نے مجھے گمراہ کردیا. اس نے مجھے سیدھے نیک راستے سے بھٹکا دیا. اور "قال الرسول یرب ان قومی اتخذوا ھذاالقرآن مھجورا " رسول علیہ الصلوہ والسلام فرمائیں گے اے میرے مالک میری اس قوم نے میری امت نے اس قرآن کو چھوڑ دیا تھا . یہ دعوی حبیب علیہ الصلوہ والسلام ھمارے خلاف کریں گے . وہ مدعی اور ھم مدعی علیہ ھوں گے . عدالت اللہ کی ھوگی اور قاضی اللہ تعالی ھوگا! ھمارا کیا حشر ھوگا اگر ھم نے قرآن کو چھوڑ دیا ؟ جیسے امت قرآن کو چھوڑ بیٹھی ھوئ ھے .

Tafseeri Afadat# 20

Share  

تفسیری افادات *25 انتخاب از خلاصہ تفسیر مفتی حماد فضل

پندرہویں سپارے میں سورہِ بنی اسرائیل کا آغاز ھے۔بنی اسرائیل حضرت یعقوب علیہ السلام کی اولاد کا نام ھے ۔ان کے گیارہ بیٹے تھے ۔اور اسرائیل حضرت یعقوب علیہ السلام کا لقب تھا ۔جس کا مطلب ھے اللہ کا بندہ ۔ بنی اسرائیل اور اس امت کے حوالے سے حدیث مبارکہ میں ایک مضمون اللہ کے نبی علیہ الصلوۃ والسلام نے ارشاد فرمایا کہ تم ضرور بالضرور بنی اسرائیل کے نقشِ قدم پر چلو گے. حتی کہ بنی اسرائیل کے کسی شخص نے اگر غار میں جاکر پناہ لی ہوگی تو اس امت میں بھی کوئی شخص ایسا ہوگا جو غار میں جاکر پناہ لے گا. بنی اسرائیل میں سے اگر کسی نے اپنی ماں کے ساتھ زنا کیا ہوگا تو اس امت میں بھی ایسا ہی واقعہ ہوگا. بنی اسرائیل بہتر فرقوں میں بٹ گئے اور یہ امت بھی تہتر فرقوں میں بٹے گی. اس حدیثِ مبارکہ کو دیکھا جائے اور بنی اسرائیل کی ان دو تباہیوں کو دیکھا جائے اور امت مسلمہ کو بھی دیکھا جائے تو بڑی عجیب مماثلت ملتی ہے. امتِ مسلمہ کی بھی اس طرح دو پٹائیاں ہوئی ہیں اور یہی سات سات سو سال کے بعد ہوئی ہیں. پہلی پٹائی جو امتِ مسلمہ کی سات سو سال بعد ہوئی ہے وہ تاتاریوں کے ہاتھوں ہوئی. تاتاریوں نے بغداد تباہ کردیا اور مسلمانوں کو گاجر مولی کی طرح کاٹ کر رکھ دیا. اور اگلے سات سو سال بعد جو پٹائی ہوئی ہے وہ اب ہماری ہو رہی ہے.کفار کے ہاتھوں، عیسائیوں کے ہاتھوں. پچھلے ڈیرھ دوسو سال سے مسلمانوں پر جو ذلت مسلط ہے وہ ان عیسائیوں کی مرہونِ منت ہے . دوسری پٹائی بنی اسرائیل کی عیسائیوں کے ہاتھوں ہوئی اور ہمارے ساتھ بھی ان کے ہاتھوں ہورہی ہے. پٹائی ہونے کی وجہ بھی یہ تھی کہ انھوں نے شریعت کو چھوڑ دیا تھا، گناہوں میں پڑ گئے تھے.پھر اللہ کا عذاب آیا.ہمارے ساتھ بھی یہی ہوا ہے ہم نے بھی شریعت کو اور اللہ کو چھوڑے بیٹھے ہیں. اجتماعی طور پر اللہ کے احکام کو چھوڑ بیٹھے ہیں. اس لیے اللہ کی طرف سے یہ اجتماعی عذاب اور پریشانیاں آرہی ہیں. یہ ھے ھمارا تذکرہ ۔اگر کوئی عبرت کی نگاہ سے دیکھے اللہ مسلمانوں کو سمجھ عطا فرمائے اور ان کو اپنی طرف رجوع کرنےاور اجتماعی توبہ کرنے کی توفیق عطا فرمائے. دیگر تفسیری افادات اور بیانات کے افادات کے لیے ہماری ویب سائٹ پہ وزٹ کریں jamiataha.com ہر اتوار کو سنیے میرا تذکرہ قران میں ـ ہماری ویب سائٹ jamiataha.com

Tafseeri Afadat# 25

Share  

تفسیری افادات #6 انتخاب از خلاصہ تفسیر مفتی حماد فضل آقا علیہ الصلوہ والسلام، کی جامعیت

۞ تِلْكَ الرُّسُلُ فَضَّلْنَا بَعْضَهُمْ عَلَىٰ بَعْضٍ ۘ ۞ ترجمہ یہ سب رسول ہیں. ان میں سے ہم نے بعض کو بعض پر فضیلت دی ھے. (سورہ بقرہ،آیت 253پارہ3) سب ہی انبیاء علیہم السلام ہمارے لئے قابل احترام ہیں. اور ہم سب پر ہی ایمان رکھتے ہیں. جو اللہ جل شانہ نے فرمایا ہے کہ بعض کو بعض پر فضیلت بخشی ہے. یعنی بعض انبیاء ایسے ھیں جن کے ساتھ اللہ جل شانہ نے براہ راست کلام فرمایا کیا. بعض کے درجات اللہ جل شانہ نے بلند کئے؛ عیسی ابن مریم کا تذکرہ فرمایا کہ ان کو ہم نے واضح دلائل اور معجزے عطاء کئے. اور اللہ جل شانہ نے یہاں پر جو ذکر فرمایا ھے کہ" فَضَّلْنَا بَعْضَهُمْ عَلَىٰ بَعْضٍ ۘ " کہ ہم نے بعض کو بعض پر فضیلت بخشی ھے،اس میں اللہ تعالی نے مختلف انبیاء کرام علیہم السلام کو مختلف معجزے اور کمالات عطاء فرمائے. اور جتنے کمالات اللہ تعالی نے ہر نبی یا رسول کو دیے اورجو معجزے ہر نبی یارسول کو دیے،ان سب معجزات اور کمالات کا مجموعہ آقا علیہ الصلوہ والسلام کو عطاء کرکے آپ علیہ الصلوہ والتسلیمات کو تمام انبیاء کرام پر فضیلت بخشی. چنانچہ آقا علیہ الصلوہ والسلام سیدالانبیاء ھیں،امام الانبیاء ھیں. فارسی کا شعر ھے. "حسن یوسف، دم عیسی،یدبیضاداری" "آنچہ خوباں ہمہ دارند،تو تنہاداری" (علامہ جامی رح) حضرت یوسف علیہ السلام کا حسن، حضرت عیسی علیہ السلام کا معجزہ، حضرت موسی علیہ السلام کا معجزہ، وہ سب اپنی اپنی جگہ قابل قدر ھیں. آنچہ خوباں ہمہ دارند یہ جتنے بھی انبیاء کرام ھیں معجزات اور خوبیاں رکھتے تھے. مگر اللہ کے حبیب علیہ الصلوہ والسلام (تو تنہا داری) آپ تن تنہا ان خوبیوں کا مجموعہ ھیں. اس لئے آقا علیہ الصلوہ والسلام سیدالانبیاء ھیں. اوراپکی شریعت بھی ساری انسانیت کے لئےھے۔بخلاف باقی انبیاء کرام کے کہ وہ خاص علاقے کے لئے بھیجے جاتے ھیں ۔اللہ نے ھمیں ایسا پیارا اور حسین محبوب دیا۔افسوس کہ ھم ایسی جامع اور عظمت والی ھستی کے طریقوں کو چھوڑ کر غیروں کے طریقے اپنا رھے ھیں۔ ھمارے ،راھنما ،لیڈر قائد رول ماڈل سب کچھ تو ان کی ھستی مبارکہ ھے صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نگاہ عشق و مستی میں وھی اول وھی آخر۔ از افادات-خلاصہ تفسیر قرآن کریم حضرت (ڈاکٹر )مفتی حماد فضل دامت برکاتہم العالیہ

Tafseeri Afadat# 6

Share  

تفسیری افادات #7

اللہ تعالی نے قران کریم میں اجتھاد اور قیاس کی طرف اشارہ فرمایا وَإِذَا جَاءَهُمْ أَمْرٌ مِنَ الْأَمْنِ أَوِ الْخَوْفِ أَذَاعُوا بِهِ ۖ وَلَوْ رَدُّوهُ إِلَى الرَّسُولِ وَإِلَىٰ أُولِي الْأَمْرِ مِنْهُمْ لَعَلِمَهُ الَّذِينَ يَسْتَنْبِطُونَهُ مِنْهُمْ ۗ وَلَوْلَا فَضْلُ اللَّهِ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَتُهُ لَاتَّبَعْتُمُ الشَّيْطَانَ إِلَّا قَلِيلًا جب ان کے پاس امن یا خوف کی خبر پہنچتی ہے تو وہ بلا تحقیق اسے مشہور کردیتےھیں. اگر یہ لوگ اسے اپنے ارباب اختیار کے سامنے پیش کرتے تو ان میں سے وہ لوگ جو بات کی تہہ تک پہنچنے کی صلاحیت رکھتے ھیں وہ ان کی حقیقت جان لیتے. اوراگراللہ کا فضل اوراسکی رحمت تم پرنہ ھوتی تو تھوڑے سے لوگوں کو چھوڑ کر باقی سب شیطان کے پیچھے لگ جاتے. (سورہ النساء آیت83 پارہ 5) اس آیت کے اندر"يَسْتَنْبِطُونَهُ " کا ذکر ھے. اس کا مطلب ھے زمین کی تہہ میں موجود پانی کو نکالنا. یعنی غوروفکر کرکے زمین کی تہہ میں موجود پانی کو آلات کی مدد سے نکالنا. اور یہی معنی "اجتہاد "کا ھے. اجتہاد کے اندر بھی جو فقیہ ھوتا ھے وہ شرعی دلائل میں غوروفکر کرکے مسئلے کا حل نکالتا ھے. اور اجتہاد کرنا بھی ھر آدمی کے بس کی بات نہیں ھے. جو فقیہ اجتھاد کا اھل ھوتا ھےوھی اجتہاد کرتاھے. تو اجتہاد اور استنباط کی بنیاد غور و فکر ھوتی ھے. مگر ھر شخص مجتھد نہیں ھوتا نہ بن سکتا ھے ۔ یہاں تو حال یہ ھے کہ ہر بندہ احادیث اور قرآن کا ترجمہ لے کر مجتھد بنا ھوا ھے۔ اجتھاد کوئی کورس نہیں کہ کرلیا جائے۔بلکہ یہ تو فطری صلاحیت ھے۔آخر ھر بندہ کیوں نہیں علامہ اقبال اور غالب جیسا شاعر بن جاتا ۔کچھ اللہ کی طرف سے وھبی صلاحتیں ھوتی ھیں۔ امام ابن ماجہ امام نسائی امام ترمذی جیسے بڑے محدث مجتھد نہیں۔تو اج کے ترجمہ خواں حضرات کیسے مجتھد ھو گئے۔ اللہ چاھے تو ابھی بھی مجتھد مطلق پیدا کر دے جیسے امام مھدی رضی اللہ عنہ آئیں گے تو مجتھد ھوں گے۔مگر جس قوم کی ماوں کوفلمیں دیکھنے سے فرصت نہ ملے وھاں امام غزالی اور امام ابو حنیفہ نہیں پیدا ھوتے۔ چنانچہ فقہاء کرام نے اجتہاد اور قیاس کے حجت کے دلائل میں اس آیت کو بھی پیش کیا ھے. از افادات-خلاصہ تفسیر قرآن کریم (ڈاکٹر )مفتی حماد فضل عفی عنہ سنئے تفسیر ھر اتوار کو ایک نئے انداز میں. ھماری ویب سائٹ com. jamiataha بعنوان میرا تذکرہ قرآن میں

Tafseeri Afadat# 7

Share