Tafseeri Afadiyat
تفسیری افادات ازخلاصئہ تفسیر #11 تقدیر الہی مختصر
يَمْحُو اللَّهُ مَا يَشَاءُ وَيُثْبِتُ ۖ وَعِنْدَهُ أُمُّ الْكِتَابِ )سورہ الرعد آیت 39 پارہ 13) یہ کتاب محفوظ ھے اس میں کوئ تغیر وتبدل نہیں ھو سکتا. اللہ جو چاھے مٹائے ،اللہ جو چاھے لکھے. اللہ تعالی کے ھاں لکھنا اور مٹانا ،اس کی کیا وجہ ھوسکتی ھے؟ حدیث مبارکہ میں ھے کہ بعض اعمال سے انسان کی عمر بڑھ جاتی ھے،رزق بڑھ جاتا ھے. صحیح بخاری میں ھے کہ صلہ رحمی عمر میں زیادتی کا باعث بنتی ھے. اسی طرح بعض اوقات آدمی ایسا گناہ کرتاھے کہ رزق سے محروم کردیا جاتا ھے. ماں باپ کی خدمت سے رزق بڑھتا ھے ،عمر میں برکت آتی ھے. اسی طرح حدیث مبارکہ میں فرمایا کہ تقدیر الہی کو کوئ چیز بجز دعا کے نہیں بدل سکتی! اصل میں تقدیر کے دو حصے ھیں. ایک: وہ تقدیر ھے جو اللہ تعالی نے پکی لکھ دی ھے. اسے تقدیر "مبرم" کہتے ھیں. اس میں تبدیلی نہیں ھو سکتی. دوسری: تقدیروہی ھے جو اللہ نے اسباب سے جوڑی ھوئ ھے،جو معلق ھے. صدقہ دو گے ،بلا ٹل جائے گی. دعا مانگو گے اللہ بلا ٹال دے گا،بیماری دور کرےگا. فلاں دوائ کھاوگے تو ھو سکتا ھے اللہ نے اس میں شفاء دوائ کے ساتھ جوڑی ھو. تو یہ تقدیر "معلق"کہلاتی ھے. ہمیں نہیں پتا کہ کس سبب کو اللہ جل شانہ نےکس سبب کے ساتھ جوڑا ھوا ھے. اسی طرح ہم اساب کو اختیار کریں گے. اور اس کا نتیجہ اللہ ہی پر رکھیں گے. از افادات-خلاصئہ تفسیر قرآن کریم مفتی حماد فضل عفی عنہ
Tafseeri Afadat# 11تفسیری افادات ازخلاصئہ تفسیر #10 اولیاء اللہ کو نہ کوئ خوف اور نہ کوئ غم!
أَلَا إِنَّ أَوْلِيَاءَ اللَّهِ لَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ الَّذِينَ آمَنُوا وَكَانُوا يَتَّقُونَ لَهُمُ الْبُشْرَىٰ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَفِي الْآخِرَةِ ۚ )سورہ یونس آیت 62،63پارہ11) اللہ کے جو ولی ھیں انہیں کوئ خوف نہیں ھوگا،کوئ غم نہیں ھوگا،قیامت کے دن. وہ لوگ جو ایمان لائے اور تقویت اختیار کیا. ان کو دنیا میں بھی بشارت ھے اور آخری میں بھی خوشخبری ھے. اولیاء اللہ سے کیامراد ھے؟ اولیاء اللہ وہ ھیں جو اللہ کے دوست ھیں. اللہ کے نیک بندے پوری دنیا کے اندر ھیں،جن کو دیکھنے سے اللہ یاد آئے. اولیاء اللہ سے کون مراد ھیں؟ ایک بار نبی علیہ الصلوہ والسلام سے یہ سوال پوچھا گیا . تو آپ علیہ الصلوہ والسلام نے فرمایا کہ وہ لوگ جو خالص اللہ کے لیے محبت کرتے ھیں اور کوئ دنیاوی غرض درمیان میں نہیں ھوتی . اور اللہ ھی کے لیے تعلق رکھتے ھیں. تقوی کے تین درجات ھیں. پہلادرجہ؛ یہ ھے کہ آدمی ان گناہوں سے بچے جو کہ واضح ھیں،اور تمام صغیرہ و کبیرہ گناھوں سے بچے. دوسرا درجہ؛ یہ ھے کہ مشتبہات سے بچے جو حلال اور حرام کے درمیان میں ھے. تیسرا درجہ؛ یہ ھے کہ ان چیزوں سے بچے جو مشتبہات اور گناھوں کی طرف لے جانے والی ھیں. از افادات-خلاصئہ تفسیر قرآن کریم مفتی حماد فضل عفی عنہ
Tafseeri Afadat# 10تفسیری افادات از خلاصہ تفسیر #9 قبلئہ اول،بیت اللہ اور حج کی فرضیت
جس وقت بیت المقدس سے قبلہ تبدیل ھوا اور بیت اللہ کو مسلمانوں کا قبلہ ٹہرایا گیا تو اس پر اھل کتاب نے بہت شور کیا. کہنے لگے کہ بیت المقدس تو افضل ھے بیت اللہ سے،اور اسے زمین پر اللہ کا پہلا گھر ہونے کا شرف حاصل ھے. اس کا جواب اللہ جل شانہ نے دیا کہ إِنَّ أَوَّلَ بَيْتٍ وُضِعَ لِلنَّاسِ لَلَّذِي بِبَكَّةَ مُبَارَكًا وَهُدًى لِلْعَالَمِينَ فِيهِ آيَاتٌ بَيِّنَاتٌ مَقَامُ إِبْرَاهِيمَ ۖ وَمَنْ دَخَلَهُ كَانَ آمِنًا ۗ بے شک سب سے پہلا گھر جو مقرر ھوا لوگوں کے واسطے وہ مکہ مکرمہ میں ھے. وہ پہلا ھے اور تمام جہان والوں کےلیے ھدایت ھے. پھر آگے اللہ جل شانہ نے دلائل بیان کئے کہ اس کی عظمت اور برکت کی کیا وجہ ھے ؟ اس کے اندر اللہ تعالی کی واضح نشانیاں ھیں. اس میں مقام ابراھیم ھے. "وَمَنْ دَخَلَهُ كَانَ آمِنًا ۗ " جو اس میں داخل ھو جائے اسے امن حاصل ھوجاتاھے. وَلِلَّهِ عَلَى النَّاسِ حِجُّ الْبَيْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ إِلَيْهِ سَبِيلًا ۚ حج کی فرضیت کا اللہ جل شانہ نے بیان فرمایا کہ جو شخص زاد راہ رکھتا ھے ،اتنا اس کے پاس پیسہ آجائے جو ضرورت سے زائد ھو کہ وہ بیت اللہ جاسکے اور بیت اللہ سے واپس آسکے، اور آنے جانے کا اور پیچھے سےاہل عیال کا خرچہ اس کے ذمے ھے،کہ وہ ان کو دے جائے جن کی کالے ان کے ذمے ھے. تو اس کے علاوہ اس کے پاس ضرورت سے زائد اتنا پیسہ جمع ھو جائے تو اس پر حج فرض ھو جاتا ھے . بعض لوگ یہ سمجھتے ھیں کہ حج کی فرضیت کا تعلق صرف آخری عمر سے ھے،ایسا بالکل بھی نہیں ھے. حج کی فرضیت کاتعلق مال سے ھے. چاھےمال کسی کے پاس بالغ ھونے کے بعد ،کسی مرد کے پاس اتنا مال آجائے کہ وہ بیت اللہ جا سکے مکہ مکرمہ جا سکے تو اس پر حج فرض ھو جائے گا. خواتین کے حق میں محرم کا اعتبار ھوتاھے،کہ خواتین کے پاس اتنا مال آجائے کہ وہ بیت اللہ سے واپس آ بھی جائیں اور ساتھ میں اپنے محرم کا خرچہ بھی اٹھا سکیں اٹھا سکیں تو پھر ان پر حج فرض ھو جاتا ھے . از افادات- خلاصہ تفسیر قرآن کریم مفتی حماد فضل عفی عنہ سنئے تفسیر ھر اتوار کو ایک نئے انداز میں. بعنوان-میرا تذکرہ قرآن میں
Tafseeri Afadat# 9تفسیری افادات #8 حضرت عیسی علیہ السلام اللہ کاکلمہ اور روح اللہ ھونے کا مطلب؟
ۚ إِنَّمَا الْمَسِيحُ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ رَسُولُ اللَّهِ وَكَلِمَتُهُ أَلْقَاهَا إِلَىٰ مَرْيَمَ وَرُوحٌ مِنْهُ کہ عیسی علیہ السلام جو ھیں وہ اللہ کے رسول ھیں،اور اللہ کا کلمہ ھیں اور ایک روح تھی جو اللہ کی طرف سے پیدا ھوئ تھی. اللہ تعالی کا کلمہ ھونےکا مطلب کیا ھے؟ حضرت جبرائیل علیہ السلام نے چونکہ اللہ کے کلمہ سے حضرت مریم علیہ السلام کے گریباں میں پھونک دیا تھا. اسی وجہ سے وہ حاملہ ھوئیں تھیں. اس لئے آپ کو روح اللہ کہا جاتاہے. روح اللہ کہنے کا مطلب یہ نہیں ھےوہ اللہ کی روح ھیں. حقیقی معنی بالکل بھی مراد نہیں ھے. بلکہ یہ روح اللہ کہنا ایسا ہی ھے جیساکہ ہم اردو میں کہتے ھیں "بیت اللہ " بیت کہتے ھیں گھر کو، اور بیت اللہ کا مطلب ھے"اللہ کاگھر" اللہ تعالی کی ذات تو گھر سے پاک ھے،کسی محل کسی مکان سے پاک ھے. تو بیت اللہ جب کہا جاتا ھے تو مطلب ھوتا ھے کہ وہ گھر جس کی نسبت اللہ کی طرف ھے. اسی طرح ہم کہتے ھیں غلام اللہ، عبداللہ. تو غلام اللہ کا مطلب ھے اللہ کا غلام. اب اللہ تعالی کو تو غلام کی ضرورت نہیں ھے. غلام کی ضرورت تو اس کو ھوتی ھے جو خدمت چاھتا ھو،اور اللہ تعالی تو خدمت سے بے نیاز ھے. تو مطلب ھوتا ھے کہ اس بندے کی نسبت اللہ تعالی کی طرف ھے. اسی طرح سے سیف اللہ، اللہ کی تلوار .تو اللہ تعالی کو تو تلوار کی ضرورت نہیں ھے. بلکہ اس تلوار کی نسبت اللہ تعالی کی طرف ھے. اسی طرح روح اللہ ھے تو یہ اللہ جل شانہ نے بغیر باپ کے واسطے سے براہ راست حضرت عیسی علیہ السلام کو پیدا کیا. براہ راست روح پھونکی گئ. اسی لئے اس روح کی نسبت بھی اللہ جل شانہ کی طرف اضافت بطور شرف بیان کرنے کے لئے ھے. تو یہ مطلب ھے روح اللہ کا. از افادات-تفسیر قرآن کریم بعنوان-میرا تذکرہ قرآن میں مفتی حماد فضل عفی عنہ واللہ
Tafseeri Afadat# 8افادات #24
سورہِ حدید میں اللہ جل شانہ فرماتے ہیں کہ تم اللہ کے راستے میں کیوں نہیں خرچ کرتے ہو؟ وہ شخص برابر نہیں ہے جس نے فتح مکہ سے پہلے اللہ کے راستے میں خرچ کیا نہ کہ اس شخص کہ جس نے بعد میں مال دیا. وہ بڑے ہیں جو پہلے اسلام لے آئے. پہلے اسلام لاکر انھوں نے قتال بھی کیا.تو پتا چلا کہ نیکی میں پہل کرنے والے آگے نکل جاتے ھیں جس نے نیکی میں پہل کی اور دوسرے اس کو دیکھ کر آگے بڑھے تو اس کو بھی ان کا اجر ملے گا ۔ اور اللہ جل شانہ بڑے ھی مھربان ھیں ۔دونوں ھی کو نوازتے ھین ۔ تو مجھے کیا کرنا ھے مجھے نیکی میں سبقت لینی ھے ۔اس انتظار میں نہ رھے کہ دوسرے ھمت کریں ۔آپ خود آگے بڑھیں۔کتنے ھی لوگ آپ کو دیکھ کر آ جائیں گے اور ان کا ثواب بھی آپ کو مل جائے گا۔ایک دو بندے ھمت کرتےھیں اور نماز کے لئے سٹیشن پر کھڑے ھوتے ھیں۔مگر جب سلام پھیرتے ھو تو بےشمار لوگ پیچھے کھڑے ھوتے ھیں،تو نیکی کرنے میں دیر نہ کریں اللہ نے ہر ایک سے اچھا وعدہ کیا ہے.یہ سب ہی بخشے بخشائے ہیں. صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین کے بارے میں اللہ جل شانہ نے فرمایا کہ ہم نے سب ہی سے وعدہ کرلیا اچھائی کا. (ڈاکٹر) مفتی حماد فضل عفی عنہ ایم ایس اسلامک بینکنگ مکمل تفسیر ایک نئے انداز میں سننے کے لیے وزٹ کریں "میرا تذکرہ قرآن میں ہماری ویب سائٹ پر
Tafseeri Afadat# 24